یاد
سے تیری،
دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے
کعبے میں دعاؤں سے فَضا معمور ہے
شنبہ: ۲۳/شعبان ۱۴۳۸ھ=
۲۰/مئی ۲۰۱۷/ کو یہ راقم اپنے
معالجین کے مشورے کے مطابق، اپنی رہایش گاہ افریقی
منزل قدیم، نزد چھتہ مسجد کے صحن میں نماز فجر کے بعد چہل قدمی
کررہا تھا کہ دارالعلوم کی مسجدِ قدیم کے مناروں سے بلند ہونے والے
اِس اِعلان نے انتہائی حزن وملال کے ساتھ بے پایاں حیرت میں
ڈال دیا کہ دارالعلوم کے استاذ حدیث حضرت مولانا ریاست علی
بجنوری کا ابھی ذرا دیر پہلے انتقال ہوگیا ہے، اِنَّا للّٰہِ
واِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُونَ․ راقم کے تجسس کے بعد اس کو معلوم
ہوا کہ ۳-۴بجے قبیلِ اذانِ فجر، اُن کو سانس لینے میں
تکلیف محسوس ہوئی تو اُنھوں نے فرزندِاکبر مولانا سفیان سلّمہ
کو فون کیا، وہ کسی قریب کے ڈاکٹر کو بلانے گئے کہ اتنے میں
اُن کی روح پرواز کرگئی۔ وقت کوئی ۴wبجے صبح کا تھا۔
مرحوم کی وفات کے اعلان پر حیرت
اِس لیے ہوئی کہ اُن کے متعلق معلوم تھا کہ وہ حالیہ دنوں میں
کسی تشویش ناک عارضے میں مبتلا نہ تھے؛ بل کہ معمول کی
زندگی گزار رہے تھے، ہرچند کہ وہ عرصہٴ دراز سے شکر کے موذی مرض
کا شکار تھے، اس کی وجہ سے انھیں دل اور گردے وغیرہ کی
تکلیف رہتی تھی، وہ چند ماہ قبل بھی اِسی سلسلے میں
دیوبند کے مشہور ڈاکٹر ”ڈی، کے، جین“ کے ہسپتال میں بہ
غرضِ علاج کئی روز داخل رہے، اس وقت قدرے تشویش کی صورتِ حال پیدا
ہوگئی تھی؛ لیکن الحمدللہ وہ اس سے صحت یاب ہوکر اپنے گھر
آگئے۔ یہ راقم ہسپتال تو اُن کی عیادت کو اپنی کم
زوری اور امراض کی وجہ سے نہ جاسکا؛ لیکن ہسپتال سے اُن کی
گھر واپسی کے ایک آدھ روز کے بعد اُن کے دولت کدے پر اُن کی عیادت
کو پہنچا تو جسمانی کم زوری جس کا اثر اُن کی آواز پر بھی
تھا کے باوجود وہ چست تھے، مزاج پرسی پر ایسے الفاظ کہے جیسے
اُن کو کوئی بڑی تکلیف نہ تھی اور نہ ہے۔ یہ
اُن کی افتاد تھی کہ وہ کسی مسئلے کو زیادہ اوڑھتے نہ
تھے، صبر وتحمل اور توکل سے اُن کا خمیر اٹھا تھا۔ وہ بڑے سے بڑے
مسئلے سے گھبراتے نہ پریشان ہوتے، اعصاب پر ایسا قابو رکھنے والا اور
مشکل اوقات میں بھی متبسّم رہنے والا راقم نے اُن کے ایسے کم
لوگوں کو پایا ہے۔
حزن وملال کی وجہ ظاہر ہے کہ وہ
دارالعلوم کے مدرسین کے خاندان کے بہت سی وجوہات کی وجہ سے
ممتاز فرد تھے، اُن کی وفات کی خبر سے ایسا لگا کہ کوئی
لاثانی گوہر کھوگیا ہے، وہ دارالعلوم کے نمایاں معاصر فضلا میں
تھے، دورہٴ حدیث میں اپنے سارے رفقاے درس سے فائق رہے، وہ علمی
پختگی اور ٹھوس لیاقت کے ساتھ ساتھ ذہانت و اِصابتِ راے، معاملہ فہمی،
دوربینی، ظرافتِ طبعی، حاضر جوابی، شریں کلامی،
سُخَن وری، طلاقتِ لسانی، سلاستِ قلمی، تقریری شستگی
اور خوش خطی میں طاق تھے۔ اکثر طلبہ ومدرسین وملازمین
اُن سے اپنے مسائل میں مشورہ کرنے اور رائے لینے اُن کے پاس جاتے، وہ
ہر ایک کو اُس کے متعلقہ مسئلے میں ایسا مشورہ دیتے، جس
سے وہ مسئلہ بہ حسن وخوبی ضرور حل ہوجاتا تھا۔ دارالعلوم کے اعلیٰ
ذمے داروں؛ بالخصوص سابق مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن قُدِّسَ سِرُّہٗ (۱۳۳۲ھ/
۱۹۱۴/=۱۴۳۲ھ/۲۰۱۰/)
کے تو وہ دارالعلوم کے پیش آمدہ پیچیدہ معاملات میں خصوصی
مشیر ومعتمد تھے۔ حق یہ ہے کہ ۱۹۸۰/ کے
بعد دارالعلوم کو جو حالات ومعاملات مسلسل پیش آئے، اُن میں سے بہت سے
معاملے اُنھی کے مشورے سے حل ہوے یا اُن کے حل ہونے کی راہ ہم
وار ہوئی۔ وہ جس دَور میں دارالعلوم سے فارغ ہوے، وہ اور اس سے
قبل کے ادوار ایسا لگتا ہے کہ دارالعلوم کا تخلیقی دورِ بَہار
تھے، اس زمانے کا ہر فاضل ہمہ جہت علمی صلاحیت، انتظامی لیاقت
اور مردم گری کی غیرمعمولی اہلیت کا حامل نظر آتا
ہے اور مولانا ریاست علی جیسے نام ور فضلا کا تو پوچھنا ہی
کیا۔
شنبہ: ۲۳/شعبان = ۲۰/مئی
ہی کو نمازِ عصر کے بعد اُن کی نماز جنازہ، دارالعلوم کے احاطہٴ
مولسری میں، دارالعلوم کے استاذِ حدیث اور جمعیة علماے
ہند (م) کے صدر حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری
مدظلہ نے پڑھائی۔
دارالعلوم اور دیگر سارے مدرسوں میں رمضان کی تعطیلِ کلاں
کا زمانہ تھا جو عموماً ۱۵/شعبان یا اس سے پہلے سے شروع ہوجاتا
ہے، اس کے باوجود دیوبند کے عمائدین وعوام کے علاوہ علما و طلبہ کے
جمِّ غفیر نے مرحوم کے جنازے اور تدفین میں شرکت کی۔
افسوس ہے کہ دل کی بائی پاس سرجری کی وجہ سے، جس پر چند ہی
روز گزرے تھے اور ڈاکٹروں نے زینہ چڑھنے اترنے نیز نشیب وفراز
عبور کرنے سے منع کررکھا تھا، یہ راقم مرحوم کی، دیوبند میں
رہتے ہوئے،آخری دید کرسکا نہ نمازِجنازہ اور تدفین میں
شرکت کی سعادت حاصل کرسکا، جس کا ہمیشہ قلق رہے گا۔ فون ہی
سے مرحوم کے فرزند خرد مولانا سعدان سلّمہ سے تعزیتی کلمات کہے تو
آواز اتنی ریندھ گئی کہ وہ الفاظ صحیح طور پر ادا نہ
ہوسکے اور بہ مشکل غیر مربوط طور پر ادا کردیے گئے۔
کئی روز تک ایسا رہا کہ جو
اساتذہ وطلبہ راقم کی عیادت کو آتے رہے، اُن سے زیادہ تر مولانا
مرحوم ہی کا تذکرہ ہوتا رہا۔ اُن کی یاد کے ساتھ ہی
اکثر آواز گلوگیر ہوجاتی اور جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہوجاتا، اندازہ
نہ تھا کہ مرحوم سے راقم کو ایسا دلی تعلق ہے؛ لیکن انسان کی
فطرت ہے کہ وہ کسی شے یا شخص کی قدر اس کے فوت ہوجانے کے بعد ہی
کرتا ہے۔ مرحوم کی وفات سے دارالعلوم میں جو خلا پیدا ہوا
ہے، اس کا پرہونا بہ ظاہرِ احوال مشکل معلوم ہوتا ہے، گو خداے قادر ووَہَّاب ہر چیز
پر ہر وقت قادر ہے۔ اِعجاز اِلٰہی ہے کہ وہ اہلِ کمال کو بھی
کمالات کے الگ الگ گوشوں کاحامل بناتا ہے؛ اِس لیے کسی بھی اہلِ
کمال کے اُٹھ جانے کے بعد ایسا خلا ہوجاتا ہے جو دیگر سارے زندہ اہلِ
کمال مل کر بھی پورا نہیں کرپاتے؛ کیوں کہ فوت شدہ باکمال ایسا
ہیرا ہوتا ہے جو تنہا حالات کے بہت سے ناگزیر تقاضوں کے نگینے میں
صحیح طور پر فٹ ہوتا ہے؛ اس لیے مسائل کی زلفِ گرہ گیر کو
سنوارنے کی جب جب ضرورت پڑتی ہے اور حالات و واقعات کا جب جب اپنا خاص
تقاضا ہوتا ہے، وہی اہلِ کمال یاد آتا ہے اور یہ یاد بہت
کچوکے لگاتی ہے کہ کیوں نہ ہم نے اسے کسی جتن کے ذریعے
فوت ہونے سے بچائے رکھا؟
مولانا مرحوم جہاں تک میرے علم میں
ہے دارالعلوم کے اساتذہٴ گرامی کے درمیان تنہا مجلسی روایت
کے امین رہ گئے تھے، عصر کی نماز کے بعد اُن کے پاس دسیوں
اساتذہ وطلبہ اور بعض دفعہ بعض اہلِ شہر آجاتے، مرحوم ہر ایک کی چائے
سے تواضع فرماتے، کوئی بھی کسی موضوع کو چھیڑ دیتا
خواہ دینی ہو یا دنیوی، علمی ہو یا ادبی،
عام حالاتِ حاضرہ سے اس کا تعلق ہو یا خاص دارالعلوم کے کسی تازہ
معاملے سے؛ مولانا رحمة اللہ علیہ کی نکتہ آفرینی، شگفتہ
گوئی اور بذلہ سنجی مجلس کو زعفران زار بنادیتی، جس سے
لوگ تادیر؛ بل کہ بعض دفعہ کئی دنوں تک اور ہفتوں ومہینوں تک
محظوظ ہوتے رہتے۔ یہ رنگ اُن کی خاص مجلس ہی کا نہ تھا؛
بل کہ کوئی مجلس ہو اگر مولانا ریاست علی بجنوری اس میں
موجود ہوتے تو مجلس کی خشکی اُن کے پرکیف ظریفانہ جملوں
سے ضرور کافور ہوتی رہتی؛ حتی کہ دارالعلوم میں جو میٹنگیں
دارالعلوم کے ذمے دار اعلیٰ کی طرف سے بلائی جاتیں
وہ بھی مولانا کی نشاط انگیز اور روح افزا معنی آفرینیوں
سے بہرہ یاب ہونے سے کبھی محروم نہ رہتیں، لوگ مجلس سے نکلتے تو
اُنھیں اُن نکتوں سے اس طرح لطف لیتے ہوے پایا جاتا، جیسے
لوگ کسی تازہ دم کردینے والے بے مثال نشاط انگیز مشروب کو لینے
کے بعد، تادیر مزے لیتے رہتے ہیں۔ اُن کا ایک ظریفانہ
جملہ تو مثل اور کہاوت کی طرح زبان زدِ خاص وعام ہے جو اُنھوں نے دارالعلوم
کے ایک استاذ کو جو اُن کے ہم سبق ہیں، اُس وقت کہا تھا، جب اُنھوں نے
ایک مجلس میں اُن سے یہ کہا کہ تم دارالعلوم میں میرے
بعد مدرس ہوے تھے؛ اس لیے تم جونئر ہو اور میں تم سے سینئر ہوں،
مولانا نے برجستہ اُن سے
فرمایا: ”دارالعلوم نے کسی نامعلوم حکمت کے تحت مجھے اُس وقت تک تدریسی
خدمت کے لیے نہیں چنا؛ جب تک میری صلاحیت گھٹتے
گھٹتے تمھارے برابر نہیں ہوگئی“۔ اس جملے کی چستی
اور برجستگی پر لوگوں کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا۔ مولانا کے جملے اور تعبیرات
کا انداز ”بیانیہ“ نہیں ہوتا تھا؛ بل کہ عموماً اُن میں
تہہ داری اور معنویت ہوتی تھی۔
مولانا کی ایک بہت بڑی
خوبی یہ تھی کہ وہ معاشرتی زندگی جینے کے فن
میں بڑے ماہر تھے۔ کوئی آدمی اُن سے کوئی معاملہ
کرکے کبھی بے مزہ نہ ہوتا تھا؛ کیوں کہ وہ کسی بات پر خواہ وہ
کتنا ہی غصہ دلانے والی ہو زبان سے یا چہرے مہرے کی کسی
ادا سے خفگی کا اظہار کرتے نہ برا منانے کی کیفیت نمایاں
ہونے دیتے، وہ اشتعال انگیز صورتِ حال میں بھی شگفتہ رو
اور خندہ جبیں رہتے۔ آج بعد ازمرگ بھی، اُن کی شبیہ
جب بھی میرے خانہٴ خیال میں آتی ہے تو ہ
شاداب نظر آتی ہے۔ بہت کم لوگوں کو یہ اندازہ ہوتا رہا ہوگا کہ
وہ اُن سے ناخوش ہیں؛ کیوں کہ اُن کی خندہ روئی اور معنویّت
و ظرافت سے پُر اُن کے جملے مخاطب کو اُن کے متعلق کسی منفی سوچ پر
کبھی آمادہ نہ ہونے دیتے تھے؛ اِسی لیے اُن کے دشمنوں کی
تعداد شاید وباید اور دوستوں کی تعداد بے شمار تھی۔
اُنھوں نے لوگوں کو اپنی اداے زندگی سے خوشی ہی دی،
رنج وغم سے اُنھیں ہمیشہ دور رکھا۔ اُن سے ملنے والوں کو سکون
واطمینان کا سرمایہ ملا، انتشار وتشویش کی کسی
صورتِ حال سے کبھی واسطہ نہ ہوا۔ اِس طرح کا آدمی پسِ مرگ اپنے
بعد کے لوگوں کو بہت یاد آتا ہے جو اُن کا صرف ذکرِ خیر کرتے اور بے
پناہ دعاؤ سے نوازتے ہیں؛ اِسی لیے اُن کی وفات کے بعد
جتنے لوگوں سے راقم کی ملاقات ہوئی سب ہی بہت رنجیدہ اور
متاثر نظر آئے، ہر ایک کو اُن کی خوش اخلاقی وحسنِ معاملہ ودل
جوئی بار بار یاد آتی اور دیدئہ ودل کو متاثر کرجاتی
ہے۔
درس گاہ میں بھی وہ شگفتہ
خاطر رہتے۔ اُن کے درس میں اِسی لیے طلبہ کا بہت جی
لگتا تھا، وہ درسی مسائل کو اپنی مرتب ومربوط اور سلیس و شستہ
زبان میں اس طرح بیان کرتے کہ وہ دورانِ درس ہی طلبہ کے ذہنوں میں
اترجاتے۔ اس سلسلے میں دو باتیں اُنھیں بہت کام دیتی
تھیں: ایک تو یہ کہ اُنھیں اُن مضامین پر مکمل عبور
تھا جنھیں وہ پڑھاتے تھے؛ کیوں کہ طبعی ذہانت اور اپنی
محنت سے اُنھوں نے اپنی طالب علمی ہی میں تمام علوم وفنون
میں کمال حاصل کرلیا تھا، اسی کے ساتھ وہ سابقہ تیاری
اور مطالعہ کے بغیرکبھی درس گاہ میں نہ آتے تھے، نیز عرصہٴ
دراز سے درس وتدریس کے مشغلے نے اُن کی تدریسی صلاحیت
کو چار چاند لگادیے تھے۔ دوسری بات یہ کہ اُن کی
فصاحتِ لسانی اور شگفتہ بیانی ہمہ وقت اُن کا ساتھ دیتی
تھی۔ وہ سال ہا سال سے شکر کی تکلیف دہ بیماری
میں مبتلا تھے، دبلے پتلے اور منحنی جسم کے تو وہ تھے ہی؛ لیکن
درس گاہ اور مجلس میں وہ کبھی ناحاضر دماغ نظر نہیں آئے؛ بل کہ
ہمیشہ وہ فی البدیہہ گو اور حاضر جواب وبرجستہ بیاں رہے،
تاحیات اُن کی یہ خوبی قائم رہی اور بیماری
یا بڑھاپے سے متاثر نہیں ہوئی۔ اُن کی نکتہ سنجی
ومعنی آفرینی اِس پر مستزاد ہوتی۔ اُن کے درس کے
مقبولیت کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ وہ دیگر
تدریسی خصوصیات کے ساتھ ساتھ زبردست ترسیلی وتفہیمی
قوت کے مالک تھے، تدریس اور تقریر ہی نہیں عام مجلسی
گفتگو کے لیے بھی یہ قوت خدا کی بہت بڑی نعمت ہے۔
بہت سے لوگ علم وفضل سے بہرہ ور تو ہوتے ہیں؛ لیکن ترسیلی
ملکہ سے بے بہرہ ہوتے ہیں؛ اِس لیے وہ نہ صرف اِفادیت کے لائق
نہیں ہوتے؛ بل کہ روز مرہ کی زندگی میں بھی اپنی
باتوں کی تفہیم سے عاجز رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے
گفتگو کرکے تفہیمی صلاحیت کے حامل لوگوں کو بڑی کوفت ہوتی
ہے۔
مولانا اپنی اِن خوبیوں کی وجہ سے انتہائی
بارآور مدرس کی طرح، زبردست مقرر بھی تھے، اُن کی تقریریں
دلچسپ اور کیف آور ہوتی تھیں، اُنھیں اپنی بات کو
سمیٹ کر الفاظ کے خوب صورت سانچے میں ڈھالنے میں مہارت تھی۔
وہ لفظ ومعنی میں توازن وہم آہنگی کا خاص خیال رکھتے تھے
اور دونوں کی قدر وقیمت اور جاے استعمال کی اہمیت سے خوب
واقف تھے، اِس لیے اپنے مطلب کو ادا کرنے کے ہنر میں بھی فرد
تھے۔ ہم ایسے لوگوں کو اُن سے بات کرکے اِتنا مزا آتا تھا کہ اسے بیان
کرنے کے لیے راقم کے پاس موزوں الفاظ نہیں۔ ہم نے اپنی
زندگی میں اُن کے ایسے چند ہی لوگ دیکھے ہیں،
جو اِس صفت میں اُن کے شریک تھے، اُن کی جدائی سے شدید
رنج ہوا اور ایسے ہی مولانا کی وفات سے؛ کیوں کہ سُخَن وری اور الفاظ و تعبیرات
کی نزاکت کی معرفت کی صفت جن لوگوں میں ہوتی ہے، وہ
اپنے ایسے دیگر لوگوں کی بھی بے حد قدر کرتے ہیں
اور اُن سے مخاطب ہوکر جی اِتنا خوش ہوتا ہے کہ تادیر وہ خوشی
قائم رہتی ہے۔ اُن کے برعکس لوگوں سے بات کرکے بہت افسوس ہوتا ہے؛ کیوں
کہ یہ لوگ گھوڑے اور گدھے کے فرق کو ذرا بھی درخورِ اعتنا نہیں
سمجھتے۔ افغانستان اور پھر عراق پر امریکہ کے سراسر ظالمانہ وصلیبی
وصہیونی حملے کے دوران راقم نے عربی کے علاوہ اردو میں بھی
بہت سے مضامین لکھے جن میں صلیبیت وصہیونیت
کے مکروفریب سے دلائل کی روشنی میں پردہ اٹھایاگیا
تھا، اخبارات میں مولانا کی نظر اُن میں سے بعض پر پڑی تو اُنھوں نے فون
پر بعض تعبیرات کی پسندیدگی کا بہ طورِ خاص راقم سے تذکرہ
کیا اور اُن کی خوبیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اُنھیں
سراہا اور یہ فرماکر حوصلہ افزائی کی کہ اِن میں جدت طرازی
کے ساتھ برجستگی بھی ہے۔ اُن کے سوا کسی اور عالم یا
رفیقِ تدریس نے کبھی اس طرح کی بات نہیں کہی؛
کیوں کہ ہمارے حلقے میں بالعموم زبان کی لذت سے ناآشنائی
بھی ہے اور درسیات کے سوا کسی اور کام کی چیز کو
پڑھنے سے شدید ”پرہیز“ بھی۔
مولانا کی تحریری نثر میں
بلا کی چاشنی اورایجاز وجامعیت ونفاست ہوتی تھی؛
اِسی لیے حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ کے دورِ
اہتمام میں دارالعلوم کی اکثر اہم تحریریں اُنھی سے
لکھوائی گئیں۔ بعض دفعہ شوریٰ کی کارروائیوں
کے مسودے بھی اُنھی نے ترتیب دیے، مختلف جلسوں کے لیے
مہتمم صاحب کی طرف سے
خطبہٴ صدارت یا خطبہٴ استقبالیہ لکھنے کی ذمہ داری
اُنھی کے سپرد کی گئی۔
اُن کی نثر کی حلاوت وسلاست
کا ایک مختصر سا نمونہ نذرقارئیں ہے۔ وہ مولانا کاشف الہاشمی کی خصائل
نگاری کرتے ہوے لکھتے ہیں:
”․․․ ان ادبی کمالات
کے علاوہ، وہ اخلاقِ حسنہ کاپیکرِ جمیل تھے، جس نے اُن کی ذات
کو دل آویز شخصیت بنادیا تھا، گویا وہ فطرت کا تراشیدہ
ایسا ہیرا تھے جس کا ہر پہلو حسن وجمال اور رنگ ونور کا جاذبِ نظر
منظر پیش کرتا تھا۔ اُن کی ذات میں علم کے ساتھ عمل، حسب
ونسب کی بلندی کے ساتھ تواضع، نظافت کے ساتھ سلیقہ، اِصابتِ راے
کے ساتھ خود اعتمادی، فقر کے ساتھ توکل، غناے نفس اور سیرچشمی،
سخاوت، شجاعت اور شمع کی طرح اپنا نقصان کرکے دوسروں کے لیے ماحول کو
منور کرنے جیسے اوصاف تھے۔“ (کلیات کاشف،ص۲۸-۲۹)
اُن کی سراپا نگاری کرتے ہوے
لکھتے ہیں:
”تمھیں شعروسخن کاذوق ہے، چلو تمھیں
ایک باکمال شاعر سے ملادیں۔ یہ شاعر ہیں حضرت کاشف
الہاشمی، نکھرا ہوا رنگ، بلند پیشانی، سنہرے چشمے کے اِحسانات
سے گراں بار بڑی بڑی آنکھیں، نکلتاہوا قد، ذہانت کا پیکرِ
جمیل، بیٹھیں تو کوہِ گراں کی نشست، چلیں تو ڈھال
سے اُترتے ہوے محسوس ہوں، یہی ہیں مملکتِ شعر وسخن کے خاموش تاج
دار، اس فن میں تَلَمُّذْ کسی سے نہیں؛ مگر ذرّوں کو ہاتھ لگادیں
تو وہ ستارے بن کر چمکنے لگیں، اُن کوترتیب سے رکھ دیں تو
کہکشاں کی تصویر ابھر آئے، مضامین اُن کے سامنے خود گرفتاری
کی پیش کش کریں اور الفاظ موتیوں کی لڑی بن
کر اُن کے قلم سے بکھرنے میں فخر سمجھیں۔“ (پیش لفظ
”واردات“ از مولانا عبدالجلیل راغبی، ص۸)
مولانا کو نثر ہی کی طرح نظم میں بھی زبردست
قدرت تھی، وہ نہ صرف خوش گو شاعر تھے؛ بل کہ اُن کی شاعری میں
استادانہ پختگی اور اَصالت تھی۔ اس فن میں اُن کے استاذ
مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی(۱۳۵۱ھ/۱۹۳۳/=
۱۴۱۷ھ/۱۹۹۶/) تھے، جو دیوبند
کے پڑوس میں واقع گاؤں ”راجوپور“ کے باسی تھے اور جن کے تفسیری
سلسلے ”ہدایت القرآن“ کو بڑی شہرت و پذیرائی حاصل ہوئی۔
مولانا کاشف صاحبِ بصیرت
عالم، صاحبِ طرز نثر نگار اور صاحبِ اِدارک شاعر تھے۔ اُن کے کلام میں
علامہ اقبالؒ (۱۲۹۰ھ/۱۸۷۳/ = ۱۳۵۷ھ/۱۹۳۸/)
کا سا رنگ وآہنگ پایا جاتا ہے، اُنھی کی طرح کائنات کو اصلاً
مومن کی میراث سمجھتے تھے اور خودی اور فقرِ غیور کی
پرورش پر توجّہ کی مسلمانوں کو دعوت دیتے تھے۔
مولانا ریاست علی ظفر بجنوری
کی شاعری میں اپنے استاذ کا گہرا رنگ پایا جاتاہے۔
اُنھوں نے حمدونعت بھی کہی ہے اور نظم وغزل بھی، قطعات ومراثی
بھی اور مدحیہ قصیدے بھی۔ اُن کی شاعری
میں عالمانہ وقار، استادانہ شکوہ، ماہرانہ نکتہ آفرینی، کے ساتھ
ساتھ مومنانہ سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ غزل گوئی
میں انھوں نے اصغر گونڈوی (۱۳۰۱ھ/۱۸۸۴/
= ۱۳۵۵ھ/۱۹۳۶/) کا تتبع بھی
کیا ہے، ایک آدھ غزل میں میرتقی میر (۱۱۳۶ھ/۱۷۲۳/
= ۱۲۲۵ھ/۱۸۱۰/) کا انداز بھی
نظر آتا ہے، جگر مرادآبادی (۱۳۰۷ھ/۱۸۹۰/=۱۳۸۰ھ/۱۹۶۰/)
تو ہر شعروادب کا مذاقِ لطیف رکھنے والے کے محبوب رہے ہیں، تو مولانا جیسے زبان کے
اداشناس کے کیوں نہ ہوتے۔
ظفر بجنوری کے یہاں بہت سے ان
مضامین میں بھی ندرت کا رنگ بہت شوخ ہے، جنھیں اساتذہٴ
سُخَنْ نے بھی اپنے رنگ میں اپنی شاعری کا حصہ بنایا
ہے۔ مثلاً غم کو انگیز کرنا؛ بل کہ اس کو متاع زیست خیال
کرنا کے مضمون کو بہت سے شعرا نے اپنے شعر میں نظم کیا ہے۔ غالب
(۱۲۱۲ھ/ ۱۷۹۷/= ۱۲۸۵/۱۸۶۹/)
کا شعر تو ضرب المثل ہے:
غم
اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر
نہ ہو تا غم ر و ز گا ر ہو تا
اور
غم
ہستی کا اسد کس سے ہو جزمرگ علاج
شمع
ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
شاعر درد کلیم عاجز پٹنویؒ (۱۳۴۵ھ/۱۹۲۶/=
۱۴۳۶ھ/۲۰۱۵/) نے غالب سے بہت آگے
کی بات کہہ دی ہے، جس سے عیاں ہوتا ہے کہ غم کے بغیر زندگی
جینی دشوار ہے:
غم
تو متاعِ ز
یست ہے ، اُ س سے گریز کیا
جس
سے ملے، جہاں سے ملے، جس قدر ملے
ظفر بجنوری کے یہاں یہ
مضمون اور خوبی وبانکپن سے اِس طرح ادا ہوا ہے کہ اس سے غم کے نہ صرف قیمتی
اثاثہ ہونے کا تصور جاگزیں ہوتا ہے؛ بل کہ اس کے مقدس وپاکیزہ پونجی
ہونے کا اعتقاد راسخ ہوتا ہے اور یہ ایمان پیدا ہوتا ہے کہ یہ
ایسا عطاے الٰہی ہے، جس سے باری تعالیٰ اپنے
خاص بندوں ہی کو نوازتا ہے:
متاعِ
غم، عطاے خاص ہے، سجدے کے دیوانے!
یہ
دولت اُس کو دیتے ہیں جسے اپنا سمجھتے ہیں
انسان خطاکار ہے، بہت احتیاط کے
باوجود، اس سے بہت سے صغیرہ اور کبیرہ گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں؛
لیکن بہت سے خدا کے بندے بڑے رجائیت پسند ہوتے ہیں، وہ یہ
خیال کرتے ہیں کہ اللہ غفور رحیم ہے، وہ ہمارے اور دیگر
بندوں کے سارے گناہ معاف کردے گا۔ بہت سے خدا کے بندے یہ خیال
کرتے ہیں کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم شافعِ محشر ہیں،
اِس لیے ہمارے گناہ کے انبار ان شاء اللہ آپ … کی شفاعت سے بخش دیے
جائیں گے۔ اِس مضمون کو عربی زبان میں علامہ بوصیری (ابوعبداللہ شرف
الدین محمد بن سعید بن حماد بن عبداللہ صہناجی بوصیری
مصری ۶۰۹ھ/ ۱۲۱۲/ =۶۹۶ھ/۱۲۹۵/)
نے قصیدہٴ بردہ کے ایک شعر میں بہت البیلے اور رقت
آمیز انداز میں بیان کیا ہے، ہر باشعور مسلمان اس کو
پڑھتے وقت بے طرح جذبات سے سرشار ہوجاتاہے۔ شعر یہ ہے:
لَعَلَّ
رَحْمَةَ رَبِّی حِینَ یَقْسِمُہَا
تَأْتِي
عَلَیٰ حَسَبِ الْعِصْیَانِ فِيْ القِسَم
(امید ہے کہ میرے پروردگار کی
رحمت، جب وہ اُس کو اپنے بندوں میں تقسیم کرے گا، بہ قدر گناہ حصوں میں
آئے گی) یعنی جتنے گناہ زائد ہوں گے، اُسی قدر رحمتِ اِلٰہی
زائد ہوگی۔
فارسی کے ایک شاعر نے اِسی
مضمون کو اِس طرح ادا کیا ہے، جس میں ناز وانداز کا رنگ غالب تو ہے؛ لیکن
علامہ بوصیری والی رقت انگیزی اور جگر سوزی
نہیں ہے:
پیشِ
عفوش قلتِ تقصیرِ ماست
عفوِ
بے اندازہ می خواہد گناہِ بے حساب
(اُس کے درگزر کے سامنے میرا گناہ
معمولی ہے، حق تعالیٰ کی بے انتہا مغفرت ہمارے بے شمار
گناہ کی متقاضی ہے)
دوسرے فارسی شاعرنے رجائیت کی
حدوں کو عبور کرتے ہوے یہ تک کہہ دیا ہے:
نصیب
ماست بہشت اے خدا شناس برو
کہ
مستحق کرامت گناہ گارا نند
(اے خدا شناس چلوہٹو! ہماری قسمت میں
جنت ہے؛ کیوں کہ خدا کے کرم کا استحقاق گنہ گاروں کو ہے، ہم چوں کہ گنہ گار
ہیں؛ اس لیے ہمیں جنت ضرور ملے گی، تمھارا کیا حال
ہوگا وہ خدا ہی کو معلوم ہے)
اصغرگونڈوی نے اس مضمون کو اردو زبان کے خوب صورت پیرایے میں
اس طرح پرویا ہے:
سنا
ہے حشر میں شانِ کرم بے تاب نکلے گی
لگا
رکھا ہے سینے سے متاعِ ذوقِ عصیاں کو
اصغر نے ”متاعِ ذوق عصیاں“ کی
انوکھی ترکیب سے اِس شعر کو غیرمعمولی جاذبیت عطا کی
ہے؛ لیکن اس میں ایک بڑی کمی یہ درآئی
ہے کہ ”بے تابی“ کی نسبت خداے بے نیاز کی طرف ہوگئی
ہے، بے تابی اضطرار کا نتیجہ ہوتی ہے، جس سے خداے ذوالجلال
مُنَزَّہْ ہے۔
مولانا ریاست علی ظفر بجنوری
نے اِس مضمون کو اِس خوبی سے ادا کیا ہے کہ اس میں اسلامی
عقیدے کے اعتبار سے کوئی نقص ہے نہ زبان وبیان کی سلاست
ونزاکت کے لحاظ سے:
کرم
کے ساتھ لامحدود رکھیں لغزشیں ہم نے
بہ
قدرِ ظرف کیا رکھتے متاعِ ذوقِ عصیاں کو
شاعرِ باشعور نے یہاں ”لغزشیں“
کا لفظ بہت برمحل استعمال کیا ہے؛ کیوں کہ ”لغزش“ اُس خطا کو کہتے ہیں
جو سہواً ہوجاتی ہے یا بے شعوری میں انسان سے سرزد ہوا
کرتی ہے۔ گویا شاعر نے اللہ تعالیٰ کی شانِ
کریمی سے امید کے ساتھ اور خدا کی رحمت ومغفرت کے یقین
کے باوجود بالقصد گناہوں سے بچنے کی تلقین بھی کی ہے اور
اللہ کی رحمت کے بھروسے ڈھٹائی اور اصرار کے ساتھ معاصی کے
بالارادہ ارتکاب سے احتراز کا درس بھی دیا ہے۔
بہ ہر کیف یہ شان دار مضمون
ہے جسے مسلمان شعرا نے ہرزبان میں نظم کیا ہے۔ بانی
دارالعلوم دیوبند حجة الاسلام الامام مولانا محمد قاسم نانوتوی قُدِّس
سِرُّہ العزیز(۱۲۴۸ھ/۱۸۳۲/=
۱۲۹۷ھ/ ۱۸۸۰/) نے اپنے نعتیہ
اردو قصیدے میں کثرتِ گناہ کے باوجود مغفرت سے بہرہ وری کو حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا ثمرہ باور کیا ہے۔
فرماتے ہیں:
یہ
سُن کے آپ شفیعِ گناہ گاراں ہیں
کیے
ہیں میں نے اِکھَٹّے گناہ کے انبار
ظفر#بجنوری کے کلام میں ایک
ندرت یہ بھی ہے کہ شعر کی کوئی بھی صنف ہو، رنگ
تغزّل کبھی اُن کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ ترانہٴ دارالعلوم میں
بھی (جو اُن کی شاعرانہ فن کاری، بلند آہنگی اور الہامِ
شعری کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے اور جس میں اُنھوں نے
دارالعلوم کی تاسیس کے پس منظر، تاریخ، کارناموں کے تذکرے ساتھ
ساتھ اُن اشخاص کے ناموں کی تلمیحات کو سبک روی کے ساتھ استعمال
کیا ہے، جو دارالعلوم کے تاریخی کردار کی حیثیت
رکھتے ہیں) تغزل کا رنگ خاصا شوخ اور نکھرا ہوا ہے، مثلاً یہ اشعار
پڑھیے:
خود
ساقیِ کوثر نے رکھی، مَےْ خانے کی بنیاد یہاں
تاریخ
مرتب کرتی ہے، دیوانوں کی رُوداد یہاں
برسا
ہے یہاں وہ ابرِ کرم، اٹھا تھا جو سوئے یثرب سے
اِس
وادی کا سارا دامن سیراب ہے، جوئے یثرب سے
کہسار
یہاں دب جاتے ہیں، طوفان یہاں رک جاتے ہیں
اِس
کاخِ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں
مہتاب
یہاں کے ذرّوں کو، ہر رات منانے آتا ہے
خورشید
یہاں کے غنچوں کو، ہر صبح جگانے آتا ہے
یہ
صحنِ چمن ہے برکھا رُت، ہر موسم ہے برسات یہاں
گل
بانگِ سحر بن جاتی ہے، ساون کی اندھیری رات یہاں
اسلام
کے اِس مرکز سے ہوئی، تقدیس عیاں آزادی کی
اِس
بامِ حرم سے گونجی ہے، سوبار اذاں آزادی کی
جو
شمعِ یقیں روشن ہے یہاں، وہ شمعِ حرم کا پرتو ہے
اس
بزمِ ولیُّ اللہی میں، تنویرِ نبوت کی ضَوْ ہے
یہ
مجلسِ مَےْ وہ مجلس ہے، خود فطرت جس کی قاسم ہے
اِس
بزم کا ساقی کیا کہیے، جو صبح ازل سے قائم ہے
رومی
کی غزل، رازی کی نظر، غزالی کی تلقین یہاں
روشن
ہے جمالِ انور سے، پیمانہٴ فخرالدین یہاں
اِس
بزمِ جنوں کے دیوانے، ہر راہ سے پہنچے یزداں تک
ہیں
عام ہمارے افسانے، دیوارِ چمن سے زنداں تک
سوبار
سنوارا ہے ہم نے، اس ملک کے گیسوئے برہم کو
یہ
اہلِ جنوں بتلائیں گے، کیا ہم نے دیا ہے عالم کو
جو
صبحِ ازل میں گونجی تھی، فطرت کی وہی آواز ہیں
ہم
پروردہٴ
خوشبو غنچے ہیں، گلشن کے لیے اِعجاز ہیں ہم
مولانا ریاست علی ظفر بجنوری کے کلام کا مجموعہ
”نغمہٴ سحر“ کے نام سے پہلی بار۱۳۹۶ھ/ ۱۹۷۶/
میں اور دوسری مرتبہ۱۴۲۲ھ/ ۲۰۰۱/
میں شائع ہوا۔ کتاب کے شروع میں، اُن کے برادرنسبتی
مولانا لقمان الحق فاروقی مرحوم کامفصل مبصرانہ،ادیبانہ اور محققانہ
مقدمہ ہے، جس میں شرح وبسط کے ساتھ، اُن کی شاعری کا مطالعہ کیاگیا
ہے اوراُن کے شعر کی روح کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی
ہے، ساتھ ہی ان کا مختصر سوانحی خاکہ بھی نذرقارئین کیاگیاہے۔
۱۴۲۲ھ/۲۰۰۱/ کے ایڈیشن
میں اُن کے دوسرے برادرنسبتی مولانا برہان الحق صاحب فاروقی زیدمجدہ
کے قلم سے ضمیمہٴ احوال کا اِضافہ ہے، جس میں اُن کا مزید
احوال درج کیاگیاہے۔ اس کے بعد مولانا ظفربجنوری نے اپنے قلم اِعجاز
رقم سے اپنے شفیق ومربی بھائی اور شعر وسخن کے باب میں
اپنے استاذ مولانا محمد عثمان متخلص بہ ”کاشف “ کی ”حضرت کاشف الہاشمی“
کے عنوان سے سوانح لکھی ہے، جس میں اُن کے ضروری حالات و واقعات
کے ساتھ ساتھ اُن کے شعری محاسن، تخیلات کی بلندی اور
قلندرانہ زندگی پر روشنی ڈالی ہے، جو چشم کشا بھی ہے اور
بصیرت افروز بھی اور جس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ہماری
گدڑیوں میں کیسے کیسے لعل چھپے رہے ہیں، جن کی
ہماری کم نگاہی کی وجہ سے وقت رہتے ہوے قدر نہ کی جاسکی
اور وقت کے بعد سوائے حسرت ویاس کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔
اس کے بعد دیوان کی ابتدا دعا
سے کی گئی ہے، اس کے بعد تین نعتیں درج ہوئی ہیں،
پھر ”عازم بیت اللہ کے نام“ کے عنوان سے ایک نظم پیش کی
گئی ہے جو قدرے طویل ہے، پھر حضرت نانوتوی نوراللہ مرقدہ کی
نعتِ فارسی کا اردو ترجمہ شعر میں صاحبِ دیوان نے پیش کیا
ہے، پھر غزلوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے جو ص۵۵ سے شروع ہوکر ص ۱۰۰
پر ختم ہوا ہے، غزلوں کے آخر میں ایک غزل میر کے تتبع میں
اور چار غزلیں اصغر کے تتبع میں کہی گئی، شائع کی
گئی ہیں۔ ص۱۰۱ سے نظموں اور مراثی
وقطعات کا سلسلہ ہے جو ترانہٴ دارالعلوم ص ۱۰۲ سے شروع
ہوکر، ص۱۳۳ پر شیخ الادب مولانا محمد اعزاز علی (۱۳۰۰ھ/
۱۸۸۲/= ۱۳۷۴ھ/۱۹۵۴/)
کے مرثیے پر ختم ہوا ہے۔ اس کے بعد مسک الختام کے طور پر کاشف الہاشمی صاحب کی بعض نظمیں
شائع کی گئی ہیں، جن میں ”فرشتہ اور انسان“ اور ”رنگارنگ:
زندگی کی مختلف تعبیریں“ اور ”حسن وعشق“ شامل ہیں۔
غالب نے کہا تھا:
ہر
بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب
آبروے شیوئہ اَہلِ نظر گئی
اس وقت ہر کس وناکس شاعری کرنے، یعنی
اس کی آبرو کو پامال کرنے لگا ہے؛ اِس لیے حضرت ظفربجنوری کے دیوان
”نغمہٴ سحر“ اور اُن کے عظیم استاذ کاشف الہاشمی کے دیوان
”کلیاتِ کاشف“ (جو ظفربجنوری کی نگرانی میں مولانا
اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی استاذ دارالعلوم دیوبند نے
حواشی سے مزین کرکے ترتیب دے کر ابھی حال ہی میں،
یعنی ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۰۱۶/
میں شائع کیا ہے) کا مطالعہ زبان وبیان کامذاق رکھنے والے، ہر
انسان کو کرتے رہنا چاہیے؛ تاکہ وہ نسلِ نو کو یہ بتاسکے کہ
بہت
جی خوش ہوا حالی سے مل کر
ابھی
کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
مولانا کاایک نمایاں وصف اُن کی سخاوت وفیاضی
اور مہمان نوازی تھا۔ وہ تقریباً ۲۲-۲۳
برس تک ہمارے پڑوسی رہے۔ افریقی منزل قدیم نزد چھتہ
مسجد میں وہ زیریں منزل کے مکین تھے اور راقم بالائی
منزل کا، وہ اکثر راقم کے متعلق مجلسوں میں مزاحاً فرماتے کہ ”مولانا
نورعالم میرے سرپرست ہیں، یعنی میرے سر پر رہتے ہیں،
میں اِن کی سرپرستی میں رہتا ہوں، خواہ یہ سرپرستی
قبول کریں یا نہ کریں۔“
راقم دیکھتا تھا کہ اُن کے یہاں
روزانہ خواہ ناشتے میں، خواہ دوپہر یا رات کے کھانے میں ایک
دو یاچند مہمان ضرور ہوتے تھے، عصر بعد کی مجلس میں دس بیس
آدمی یا اس سے زائد بندے آشریک ہوتے اور وہ ہر ایک کو
چائے اور کبھی اُس کے ساتھ وائے ضرور پیش فرماتے۔ رمضان کے دنوں
میں یہ سلسلہ اور بڑھ جاتا تھا، مولانا کے یہاں سے ہم سارے پڑوسیوں کے یہاں انواع
واقسام کی افطاریوں سے سجا ہوا خوانِ یَغْما مہینے میں
کئی بار ضرور آتا۔ ۲۰-۲۲ برس کی
مُجَاوَرَتْ کے بعد جب وہ اپنے نئے تعمیر شدہ مکان واقع محلہ خانقاہ منتقل
ہوگئے، تب بھی کئی سال تک اُنھوں نے اِس سلسلے کو باقی رکھا۔
پھر ہم ہی لوگوں کے دباؤ میں کہ اب جائے وقوع کی قدرے دوری
ہوگئی ہے اورجو بچے ماکولاتی ہدیوں کی ترسیل کا کام
کرتے تھے وہ بڑے ہوکر اب بہت مشغول ہوگئے ہیں؛ اِس لیے اب یہ
سلسلہ موقوف کردیا جائے تو ہم لوگوں کو بے حد خوشی ہوگی، مولانا بہ مشکل تمام اس
کوموقوف کرنے پر راضی ہوے؛ لیکن اُنھوں نے ہم پڑوسیوں کو اور ہم
پڑوسیوں نے اُنھیں ہمیشہ رشتہ دار اور عزیز ہی باور
کیا اور خوشی وغم میں ہم ایک دوسرے کے برابر شریک
رہے۔ مولانا کے یہاں یا ہمارے ہاں کوئی تقریب ہوتی
تو ہم ایک دوسرے کو ضرور مدعو کرتے؛ لیکن مولانا اور اُن کی اہلیہ
(صفیہ شاہانہ ۱۳۶۱ھ/۱۹۴۲/
= ۱۴۳۲ھ/۲۰۱۱/) کی طرف سے ہمارے
ساتھ جود وکرم کا معاملہ ہم سے سواہوتا۔
مولانا مفلوک الحال کی مدد کرتے اور دردمندوں کا درد باٹنتے تھے،
کسی کو کسی بات پر سرزنش کرتے تو بڑے پیار سے اِس انداز میں
کرتے کہ کبھی مخاطب کو بُرا نہ لگتا۔ وہ کسی کو سخت بات بھی
کہتے تو استعارہ اور رمزیت کا ایسا خوب صورت پیرایہٴ
بیان اور دل کش گفتگو کا ایسا انداز اختیار کرتے کہ بات کی
تلخی نہ صرف کافور ہوجاتی؛ بل کہ وہ قَنْدِ مُکَرَّرْ بن جاتی۔
وہ اسلاف اور اکابر کے مسلک ومشرب کی
سختی سے پیروی کرتے، اس سے ذرہ برابر انحراف کو ناروا تصور کرتے۔
نماز باجماعت کے بہت پابند تھے۔ اُن کی کبھی کوئی نماز
قضا ہوئی نہ روزہ ۔ قرآنِ پاک کی تلاوت کا خاص اہتمام فرماتے۔
مسائل کے باب میں جمہور علماے احناف کی رائے اور فتویٰ پر
عمل کرتے، بہت سے علما کی طرح اس سلسلے میں وہ کسی تفرد کے قائل
نہ تھے۔ بالعموم مشورے کی پابندی کرتے، پھر جو رائے قائم کرتے
اُس پر کوہِ گراں کی طرح جمے رہتے۔ اُن کی زندگی میں
تذبذب اور انتشار کا کوئی گزر نہ تھا۔ اعتدال،تواضع، سادگی،
اتّباعِ سنت، یک رنگی، فکری پختگی، یقینِ
محکم؛ معرکہٴ حیات میں اُن کی کارگرشمشیریں
تھیں۔
مولانا علمی لیاقت کے بہ قدر متنوع مشاغلِ زندگانی کی
وجہ سے، تصنیف وتالیف کی طرف کما حَقُّہ تَوَجُّہ نہ دے سکے؛
ورنہ وہ ایک بڑے مُوٴَلِّفْ اور اہلِ قلم ہوتے؛ لیکن جو تالیفی
وتحریری کام اُنھوں نے کیے وہ بہت گراں مایہ ہیں،
جن میں سرِفہرست اُن کی صحیح بخاری کی شرح ”ایضاح
البخاری“ ہے، جس کی اب تک دس جلدیں آچکی ہیں۔
اِس کتاب میں اصلاً تو اُنھوں نے اپنے جلیل القدر استاذ ودارالعلوم دیوبند
کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا سید فخرالدین احمدقُدَّ
سِرُّہ (۱۳۰۷ھ/۱۸۸۹/ = ۱۳۹۲ھ/۱۹۷۲/)
کے اِفادات کو جمع کیا ہے، جنھیں اُنھوں نے زمانہٴ طالب علمی
میں پابندی سے نوٹ کیا تھا؛ لیکن اُنھوں نے بخاری کی
اِس شرح کو مفید تر اور دیگر شرحوں سے ممتاز تر بنانے کے لیے
خود بھی سابقہ شرحوں اور علماے دیوبند کے افادات کا مطالعہ کرنے کا
التزام کیا، اِسی لیے کام خاص تحقیقی اور درازنفس
ہوگیا،اس کی وجہ سے اُن کے مشغول اوقات کا بڑا سرمایہ اس میں
صرف ہوگیا۔ اُن کا مزاج بہت سے اہلِ علم ونظر کی طرح یہ
تھا کہ کوئی کام یا تو کیا نہ جائے اوراگر کیا جائے تو ایسا
ہو کہ وہ ہر اعتبار سے بہتر سے بہتر ہو کہ لوگ اس سے زیادہ سے زیادہ
فائدہ اٹھائیں اور یہ کہیں کہ کام اِسے کہتے ہیں؛ اِسی
لیے وہ اپنے فکر ونظر کا بہت بڑا اثاثہ خرچ کرکے کتاب کی صرف پانچ جلدیں
ہی تیار اور شائع کرسکے، اس دوران بڑھاپا اور اُس کے بڑھتے ہوے عوارض
اور طرح طرح کی بیماریوں کی وجہ سے وہ بہت ٹوٹ چکے تھے
اور اُن کو اندازہ تھا کہ اب یہ کام اُن سے موجودہ ضعفِ جسمانی اور
فکری ناتوانی کے ساتھ اُن کے قائم کردہ معیار پر نہیں
ہوسکتا تو اُنھوں نے چند سال قبل ہی اِس سلسلے میں اپنے ذی
استعداد تلمیذ رشید مولانا فہیم الدین بجنوری قاسمی
استاذ دارالعلوم دیوبند کو اس کام میں اپنا معاون بنالیا اور
اُنھیں منہجِ کار بتاکر اپنی بہ راہ راست نگرانی میں اِس
کام کو جاری رکھا؛ چناں چہ اُن کی حیات ہی میں اس
کتاب کی دسویں جلد زیورِطبع سے آراستہ ہوکر بازار میں آچکی
تھی۔ ان شاء اللہ اُن کے بعد بھی یہ کام حسبِ سابق اُن کے
نقشہٴ راہ کے مطابق جاری رہے گا اور کتاب تقریباً ۲۲
جلدوں میں اِن شاء اللہ مکمل ہوجائے گی۔
اِس کتاب کی خصوصیت- جو اس کو
بخاری شریف کی ساری شرحوں سے ممتاز کرتی ہے- یہ
ہے کہ اِس میں اِفاداتِ اکابر کا اِحاطہ کرنے کی کوشش کی گئی
ہے، یعنی اگر بخاری کی حدیثوں کے حوالے سے کوئی
بات اُنھوں نے کہی ہے تو اُس کو اپنی جگہ درج کرنے کا اہتمام کیاگیا
ہے، اِس سے استفادے میں بے انتہا آسانی پیدا ہوگئی ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اِمام بخاری کے تراجم کی
گہرائیوں میں اترکر اُن کی قدروقیمت اجاگر کی گئی
ہے اور اُن کی اصل حقیقت ومراد کو واضح کیاگیا ہے؛ کیوں
کہ مولانا مرحوم کے استاذِ کبیر حضرت مولانا سید فخرالدین احمد
صاحب نَوَّرَاللہ مرقدہ، جن کے اِفادات کو ”اِیضاح البخاری“ میں
جمع کیاگیا ہے، بخاری کے تراجم کے اصل مطالب تک پہنچنے میں
فرد تھے۔ بہت سے دقیق النظر علما اُنھیں اِس حوالے سے حافظ ابن
حجر عسقلانی (احمد بن علی ابوالفضل متوفی ۸۵۲ھ/
۱۴۴۹/) صاحب ”فتح الباری“ سے فائق قرار دیتے ہیں۔
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ امام بخاری (محمدبن اسماعیل
جعفی ۱۹۴ھ/۸۱۰= ۲۵۶ھ/۸۷۰/)
نے امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ (نعمان بن ثابت ۸۰ھ/۶۹۹/
= ۱۵۰ھ/۷۶۷/) پر جتنے اعتراضات کیے ہیں،
اُن کا مدلل اور بھرپور جواب دیاگیا ہے اور ایسے مواقع کی
بحثوں کو سارے گوشوں کے ساتھ لکھنے کی کوشش کی گئی ہے؛ تاکہ ان
اعتراضات سے پیداشدہ الجھن کے شکار علما وطلبہ کو مکمل تشفی ہوجائے،
اُنھیں کسی طرح کی تشنگی محسوس نہ ہو۔
اُن کی دوسری اہم کتاب ”شوریٰ
کی شرعی حیثیت“ ہے، جو اُنھی کی نگرانی
میں ”شیخ الہند اکیڈمی“ دارالعلوم دیوبند سے شائع
ہوئی، جس کے وہ ۱۴۰۸ھ/۱۹۸۷/
سے مدیر مقرر ہوے اور کئی سال تک یہ ذمّے داری بہ حسن
وخوبی انجام دی، اُن کی اِدارت اور نگرانی میں اکیڈمی
سے کئی اہم کتابیں شائع ہوئیں۔ ”شوریٰ کی
شرعی حیثیت“ کی تالیف کی وجہ یہ ہوئی
کہ ۱۴۰۰-۱۴۰۲ھ/ ۱۹۸۰-۱۹۸۲/
کے دوران دارالعلوم میں جو انتشار کی حالت پیدا ہوئی، جس
میں شوریٰ کی حیثیت کو کم زور کرنے کی
کوشش کی گئی، اس پس منظر میں حضرت مولانا مسیح اللہ خاں
صاحب جلال آبادی قُدَّسَ سِرُّہ (۱۳۱۹ھ/۱۹۱۱ء
=۱۴۱۳ھ/ ۱۹۹۲ء) کا ایک
رسالہ ”رسالہٴ اہتمام و شوریٰ“ منظرِعام پر آیا، جس میں
مہتمم کو اصل اور شوریٰ کو فرع قرار دیاگیا اور دارالعلوم
کے دستورِ اساسی کو غیرشرعی بتایاگیا تھا۔
حضرت مولانا چوں کہ حضرت اقدس حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی
نَوَّرَاللہ مرقَدَہ (۱۲۸۰ھ/۱۸۶۳/
=۱۳۶۲ھ/ ۱۹۴۳/) کے خلیفہٴ
مجاز اور علم وعرفان کے حوالے سے بڑے مقام کے آدمی تھے؛ اِس لیے اُن کی
طرف سے دارالعلوم کے دستورِ اساسی پر اعتراض کو علمی حلقوں میں
باوزن گردانا گیا۔ اِس صورتِ حال کی نزاکت کے پیش نظر
دارالعلوم کے صدر المدرسین حضرت مولانا معراج الحق صاحب رحمة اللہ علیہ
(۱۳۲۸ھ/۱۹۱۰/ = ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۱/)
نے شوریٰ کے موضوع کی تحقیق وتنقیح کے لیے
مولانا ریاست علی مرحوم کو مُکَلَّفْ فرمایا، مولانا نے موضوع کے سارے
مصادر ومراجع کا مطالعہ کیا اور ”شوریٰ کی شرعی حیثیت“
میں اپنے مطالعہ کا نچوڑ پیش فرمایا اور دارالعلوم کے دستور
اساسی کے غیرشرعی ہونے کے شبہے کی تردید مضبوط
دلائل کی روشنی میں کی۔
اِدھر چند سالوں سے وہ صحت کی ناسازی
کے باوجود کئی ایک گراں مایہ علمی وتحقیقی
کاموں میں لگے رہے؛ جن میں قاضی محمد اعلی تھانوی (متوفی بعد ۱۱۵۸ھ/۱۷۴۵/)
کی کتاب ”کَشَّافُ اصطلاحات الفنون“ کی تحقیق اور اصل نسخے یعنی
مصنف کے قلم سے لکھے ہوے اصل مخطوطہ مسودے سے مقابلہ اور انتہائی تدقیق
کے بعد کتاب کے صحیح اور مُحَقَّقْ نسخے کی تیاری بھی
ہے۔ اُنھوں نے اس زبردست تحقیقی کام میں اپنے کئی ایک
فاضل تلامذہ سے بھی مدد لی اور اپنی زندگی ہی میں
وفات سے کچھ مدت پہلے کتاب کو کمپیوٹر سے ٹائپ کرواکر مبیضے کی
تصحیح وغیرہ سے فارغ ہوگئے تھے اور اب صرف اس کتاب کی اشاعت رہ
گئی ہے جو ہونے کو ہے۔
خوش قسمتی سے مولانا کو اِس کتاب کے
مصنف کے ہاتھ کے لکھے ہوے قلمی مخطوطے کا عکس، مسلم یونیورسٹی
کی مولانا آزاد لائبریری سے مل گیا، نیز کتاب کے قدیم
ایڈیشن مطبوعہ کلکتہ (جو ۱۸۵۲/ تا ۱۸۶۲/
قسط وار شائع ہوا تھا اور جس کا عکس سہیل اکیڈمی لاہور نے ۱۹۹۳/
میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (۱۳۳۳ھ/۱۹۱۴/=۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹/)
کی ہدایت کے مطابق طبع کیا تھا جس کے نسخے بازار میں دست یاب
ہیں) کا نسخہ اُنھیں بہ آسانی مل گیا، نیز عالم عربی
سے طبع شدہ کتاب کا وہ ایڈیشن بھی مل گیا جو الف بائی
ترتیب سے شائع ہوا ہے؛ کیوں کہ مصنف کے یہاں الف بائی ترتیب نہ تھی؛ بل کہ
اُنھوں نے پہلے حرف کو باب اور تیسرے حرف کو فصل قرار دے کر الفاظ اور
اصطلاحات لکھے تھے، مثلاً ”ادب“ کالفظ باب الألف فصل الباء میں تھا۔
مولانا نے اِن تینوں
نسخوں کو بنیاد بناکر کتاب کا ممکنہ حد تک صحیح ترین اور مکمل
نسخہ تیار کیاہے اور کتاب کو عصرِ جدید کے مذاق کے مطابق
مُدَوَّنْ کرکے اس کو مفید تر بنادیا ہے۔ اُنھوں نے مندرجہٴ
ذیل اہم کام کیے ہیں:
۱- مصنف نے جن اصطلاحات کی تعریف میں فارسی زبان
کااستعمال کیاہے، اس کو کتاب کے متن میں اُسی طرح باقی
رکھنے کا التزام کیاگیا ہے؛ تاکہ فارسی جاننے والے اہلِ علم بہ
راہ راست استفادہ کرسکیں۔
۲- فارسی متن کے نیچے
عربی ترجمہ بھی درج کیاگیا ہے، اگر ترجمے میں کوئی
غلطی درآئی تھی تو حتی الاِمکان اُس کی تصحیح
کردی گئی ہے؛ تاکہ فارسی سے ناواقف لوگ عربی ترجمے سے
فائدہ اُٹھاسکیں۔
۳- اگر مصنف نے کسی فارسی متن کا عربی ترجمہ نہیں کیاتھا
تو اِس مُحَقَّقْ نسخے میں فحص وتدقیق کے ساتھ عربی ترجمے کا
اِضافہ کیاگیاہے۔
۴- متن کی عبارت کو، عصرِ
حاضر میں رائج رموزِ املا اور علاماتِ ترقیم کے مطابق لکھا گیاہے؛
تاکہ موجودہ زمانے کے قاری کو کتاب سے استفادے میں کوئی تکلف نہ
ہو۔
۵- آیاتِ قرآنی اور
احادیث کی تخریج کی گئی ہے۔
۶- ضروری الفاظ کو بااعراب
لکھاگیا ہے۔
۷- پوری کتاب کی عبارت
کی دقتِ نظری کے ساتھ تصحیح کی گئی ہے؛ کیوں
کہ اِس طرح کی خالص علمی وفنی کتاب میں ذراسی غلطی
بھی، بڑی علمی گم راہی پر منتج ہوتی ہے۔
دوسرا اہم علمی وتحقیقی
کارنامہ مولانا نے یہ انجام دیا کہ مولانا فتح محمد تائب لکھنوی
(متوفی ۱۳۴۲ھ / ۱۹۲۳/) کی
”خلاصة التفاسیر“ کی تدوین وتحقیق کی اور اس سلسلے
میں اپنے بعض ہونہار شاگردوں سے مددلی۔ اِس تفسیر کے
انتخاب کی وجہ یہ ہے کہ اس کی زبان میں سادگی اور ایجاز
ہے اوراپنے نام کے مطابق واقعتا بہت سی تفسیروں کی روح ہے۔
ترجمے میں امام شاہ ولی اللہ دہلوی (۱۱۱۴ھ/ ۱۷۰۳/ = ۱۱۷۶ھ/۱۷۶۲/)
اور شاہ عبدالقادر دہلوی (۱۱۶۷ھ/۱۷۵۳/= ۱۲۳۰ھ/۱۸۱۴/)
کے تراجم سے استفادے کا اہتمام کیا ہے، ترجمے میں محاورہ اور لفظ
دونوں کا خیال رکھا گیا ہے، احکام کے باب میں مشہور ومقبول روایات
درج کرنے کی پابندی کی گئی ہے؛ جب کہ ترغیب وترہیب
کے سلسلے میں وہ روایات لی گئی ہیں جو کسی
معتبر کتاب میں واردہوئی تھیں اور اُن کا مضمون کسی
امرثابت اور خبر صحیح کے مخالف نہ تھا، آیاتِ قرآنی سے دقیق
لطائف بھی اخذ کیے ہیں، اَصحابِ تزکیہٴ واِحسان کا
بھی جامعیت کے ساتھ تذکرہ کیاہے، اسرائیلیات میں
سے صرف وہ روایات لی ہیں جو انبیا کی عصمت، عقلِ صحیح،
اخبار صحیحہ اور اصولِ اسلامی کے مخالف نہ تھیں،مسائلِ فقہیہ
کو احناف کی قابلِ اعتماد کتابوں اور مصادر سے نقل کرنے کی کوشش کی
ہے، تفسیر میں بھی حنفی اصول کو ہی ملحوظِ خاطر
رکھا ہے۔
حضرت مولانا عبدالماجد دریاآبادی
رحمة اللہ علیہ (۱۳۱۰ھ/۱۸۹۲/=
۱۳۹۹ھ/۱۹۷۸/) کو بھی یہ
تفسیر بہت پسند تھی۔ وہ فرماتے تھے کہ تفسیر ہذا ”بہ قامت
کہتر بہ قیمت بہتر“ کی مصداق ہے۔ یہ تفسیر سب سے
پہلے لکھنوٴ کے مطبع انوارِ محمدی سے ۱۳۰۹ھ/۱۸۹۱/
سے ۱۳۱۱ھ/۱۸۹۳/ کے درمیان
شائع ہوئی، جو چار جلدوں پر مشتمل تھی، صفحات کی تعداد ۲۶۴۰
تھی۔بعد میں یہ نایاب اور غیرمُتَدَاوَلْ
ہوگئی تھی۔
مولانا کو اِس کا ایک مطبوعہ بوسیدہ نسخہ دارالعلوم دیوبند
کے کتب خانے سے ملا؛ چوں کہ وہ اس تفسیر کی مذکور الصدر خوبیوں
سے واقف تھے؛ اِس لیے اُنھوں نے تدوین وتحقیق کے بعد اِس کی
اِشاعتِ نو کا اِرادہ فرمایا؛ تاکہ طلبہ وعلما کو اِس مختصر اور غیرمعمولی
تفسیر سے استفادے کا موقع ملے اور دسیوں کتابوں کا خلاصہ اُنھیں
اِسی ایک کتاب میں مل جائے۔
اِس کتاب کی تدوینِ نو اور
تحقیق میں مولانا نے مندرجہٴ ذیل کام کیے اور کرائے ہیں:
۱-احادیثِ مرفوعہ کی
تخریج صحیحین سے کی گئی ہے، اگر کوئی روایت
صحیحین میں نہیں ملی تو دیگر کتبِ سنن ومسانید
کاحوالہ دیاگیاہے۔
۲- حوالے میں احادیث کے
نمبروں کے علاوہ کتاب،باب اور مطبع کی بھی نشان دہی کی گئی
ہے۔
۳- اقوالِ صحابہ کا حوالہ کتبِ حدیث
سے تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کتبِ حدیث میں اگر
حوالہ نہیں ملاتو کتبِ تفسیر کے حوالے پر اکتفا کیاگیاہے۔
۴-مصنف نے حوالوں کے لیے جن کتابوں کو بنیاد بنایا ہے،
اُن سے بہ راہِ راست مراجعت کی گئی ہے اور عصری انداز میں
حوالوں کی تجدید کردی گئی ہے۔
۵- مصنف کی عبارتوں میں
ضروری جگہوں پر عناوین کا اِضافہ کیاگیا ہے۔
۶- تدوینِ نو میں عصری
انداز میں رموز اِملا کا استعمال کرنے کا اہتمام کیاگیاہے۔
۷- صفحات کے نیچے جو حواشی
اور حوالے مصنف کے ہیں، اُن کے آخر میں ”منہ“ لکھ دیاگیا
ہے، جب کہ محقق نے اپنے حواشی کو مطلق رہنے دیاہے۔
سوانحی خاکہ
مولانا ریاست علی ظفربجنوری
۹/مارچ ۱۹۴۰/ (شنبہ:۲۸/محرم ۱۳۵۹ھ)
کو شہر علی گڑھ کے محلہ ”حکیم سرائے“ میں پیداہوے۔یہاں
اُن کے والد ماجد جناب منشی فراست علی (متوفی ۱۳۶۳ھ/ ۱۹۴۴/)
درس وتدریس کے مشغلے کی وجہ سے مقیم تھے۔ آبائی وطن
موضع ”حبیب والا“ ضلع بجنور ہے۔ حبیب والا ضلع بجنور کی
قدیم آبادیوں میں سے ایک ہے،اس کی تاریخ تاسیس
۹۸۰ھ/۱۵۷۲/ ہے جو ”حبیب والہ“ کے
لفظ سے نکلتی ہے، گویا یہ نام اُس بستی کا تاریخی
نام ہے۔ یہ بستی اُن تین بستیوں میں سے ایک
ہے جو مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر (۹۴۹ھ/۱۵۴۲ھ=
۱۰۱۴ھ/۱۶۰۵/) نے میزبانِ
رسول حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ (خالد بن زید خزرجی
متوفی ۵۲ھ/۶۷۲/) کی ایک پشتینی
اولاد حبیب اللہ (متوفی ۱۰۲۴ھ/۱۶۱۵/)
کو عطا کی تھیں، جن میں سے ایک ”فیض پور“ ہے جو
قصبہ ”نہٹور“ کے قریب ہے، دوسری ”حبیب والا“ ہے اور تیسری
”سرائے شیخ حبیب“ ہے جو قصبہ ”چاندپور“ کے پاس ہے۔
مولانا کا سلسلہٴ نسب ۳۵
ویں پشت پر سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے
جاملتا ہے۔ شجرہٴ نسب اِس طرح ہے:
ریاست علی بن فراست علی
بن مشرف علی بن صادق علی بن اصغر علی بن کمال علی بن مولوی
اِحسان علی بن مولوی محمد امین بن محمد وارث بن عبدالحق بن شیخ
سعد اللہ بن شیخ عبدالحمید بن شیخ حبیب اللہ بن شیخ
خان بن برخوردار بن عبدالکریم بن عبدالخالق بن عبدالرؤف بن شیخ اسعد
بن ابوطاہر بن عبدالمالک بن شیخ صادق بن غازی سعد اللہ بن خواجہ جلال
الدین بن خواجہ سلیم بن خواجہ اسماعیل بن شیخ الاسلام
حضرت خواجہ عبداللہ بن خواجہ ابی منصور بن ابی معاذ بن محمد بن احمد
بن علی بن جعفر بن منصور بن سیدنا ابوایوب الانصاری رضی
اللہ عنہ۔
مولانا کوئی چارسال کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔
مولانا سے بڑے ایک
بھائی تھے وراثت علی، متوفی ۱۳۷۳ھ/۱۹۵۴/
وہ ۱۶/سال کی عمر میں ہائی اسکول کا امتحان فرسٹ ڈویژن
سے پاس کرکے کم عمری ہی میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔
مولانا نے ابتدائی
تعلیم اپنے قصبہ ”حبیب والا“ ہی میں حاصل کی۔
۱۳۷۳ھ/۱۹۵۴/ میں پرائمری
اسکول حبیب والا سے درجہٴ چہارم کا امتحان پاس کیا۔ اس کے
بعد اُن کے پھوپا مولانا سلطان الحق صاحب (۱۳۲۵ھ/۱۹۰۷/= ۱۴۰۷ھ/
۱۹۸۷/) ناظم کتب خانہ دارالعلوم دیوبند اُنھیں
دینی تعلیم میں لگانے کے لیے دیوبند لے آئے۔
مولانا سلطان الحق بڑے دانا مربی اور سیاسی واجتماعی فہم
وفراست کے حامل آدمی تھے، کتب خانے میں اُن کے پاس ہمہ وقت دارالعلوم
کے اہم اساتذہ وملازمین کی مجلس لگی رہتی تھی، جن
اساتذہ وملازمین کو اپنے کاموں سے ذرافرصت ملتی، مولانا سلطان الحق کی مدبرانہ
وتجربہ کارانہ باتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے وہ اُن کے پاس ضرور پہنچ جاتے۔
مولانا سلطان الحق دارالعلوم کے باکمال فضلا میں تھے، حبیب والا ضلع
بجنور ہی کے باسی تھے۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا سیدحسین
احمد مدنی (۱۲۹۵ھ/۱۸۷۹/=
۱۳۷۷ھ /۱۹۵۷/) سے بیعت تھے
اور بے حد عقیدت رکھتے تھے۔ مولانا سلطان الحق نے مولانا ریاست علی کی مکمل تعلیم وتربیت کا معقول انتظام اپنی
سرپرستی میں کیا، جس کی وجہ سے اُن کی طالب علمانہ
زندگی کا ہر لمحہ اپنے صحیح مصرف میں صرف ہوا۔ دارالعلوم
ہی میں مولانا ریاست علی نے فارسی کی تعلیم حاصل کی اور عربی
کی ابتدائی کتابیں دارالعلوم کے مختلف اساتذہ سے دارالعلوم میں
داخلے کے بغیر پڑھیں۔
۱۸/شوال ۱۳۷۳ھ=
۱۵/مئی ۱۹۵۴/ کو بہ عمر ۱۴/
سال دارالعلوم میں شرحِ جامی بحث فعل، کنزالدقائق،اصول الشاشی،
قطبی اور نفحة العرب کی جماعت میں داخل ہوے۔ محنت، اپنی
ذہانت اور اپنے پھوپا مولانا سلطان الحق کی حکیمانہ تربیت کی وجہ سے وہ ہمیشہ
اپنے درجوں میں ممتاز رہے۔ ۱۳۷۸ھ/۱۹۵۸/
میں اُنھوں نے دورہٴ حدیث شریف کے امتحان میں فرسٹ
ڈویژن اور فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ لائق ذکر ہے کہ اُس وقت
دارالعلوم میں ۵۰ نمبرات آخری نمبرات ہوا کرتے تھے؛ لیکن
مولانا کو اُن کے اساتذہٴ
گرامی نے حد درجہ خوش ہوکر کسی کتاب میں ۵۵،کسی
میں ۵۴، کسی میں ۵۳ اور کسی میں
۵۲ نمبر دیے، صرف ایک کتاب میں ۵۰ نمبر
ملے۔ سالانہ امتحان میں ہر کتاب میں نمبروں کی تفصیل
اِس طرح ہے:
بخاری شریف ۵۵،
مسلم شریف۵۲، ترمذی شریف۵۲، ابوداؤد شریف۵۳،
نسائی شریف ۵۵، ابن ماجہ شریف ۵۲، طحاوی
شریف ۵۳، مُوَطَّا امام مالک ۵۴، مُوَطَّا امام
محمد ۵۳۔ گویا اُنھیں کل ۵۰۰
نمبرات کی بہ جائے ۵۲۹ نمبرات ملے جو غیرمعمولی
بات ہے۔
دورہٴ حدیث شریف کے سال
اُنھوں نے بخاری شریف حضرت مولانا سیدفخرالدین احمد
نَوَّرَاللہ مرقَدَہ (۱۳۰۷ھ/۱۸۸۹/= ۱۳۹۲ھ/۱۹۷۲/)
سے پڑھی، جب کہ مسلم شریف اور ترمذی شریف حضرت علّامہ
محمد اِبراہیم بلیاوی رحمة اللہ علیہ (۱۳۰۴ھ/۱۸۸۶/=
۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷/) سے پڑھیں،
ابوداؤد شریف حضرت مولانا سیدفخرالحسن صاحب رحمة اللہ علیہ (۱۳۲۳ھ/۱۹۰۵/=
۱۴۰۰ھ/۱۹۸۰/) سے، نسائی شریف
وابن ماجہ شریف حضرت مولانا بشیراحمد خاں صاحب رحمة اللہ علیہ
(متوفی ۱۳۸۶ھ/۱۹۶۶/) سے،
طحاوی شریف حضرت مولانا ظہوراحمد صاحب رحمة اللہ علیہ (۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰/=
۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳/) سے، شمائل ترمذی
حضرت مولانا سیدحسن صاحب رحمة اللہ علیہ (متوفی ۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱/)
سے، مُوَطَّا امام مالک حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب
صاحب سابق مہتمم
دارالعلوم دیوبند (متوفی ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷/=
۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳/) سے اور مُوَطَّا
امام محمد حضرت مولانا محمد جلیل کیرانوی رحمة اللہ علیہ
(متوفی ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۸/) اور
حضرت مولانا سید حسن صاحب رحمة اللہ علیہ سے مشترکہ طورپر پڑھی۔
طالب علمی کے زمانے میں
اُنھوں نے جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیبِ کامل کا امتحان فرسٹ پوزیشن
سے پاس کیا؛ چناں چہ ”سرسیدگولڈ میڈل“ سے سرفراز کیے گئے۔
دارالعلوم سے فراغت کے بعد ہی
اُنھوں نے ”اِیضاح البخاری“ کی ترتیب کا کام شروع کردیا،
ذریعہٴ معاش کے لیے خوش خطی سیکھی، اِس کے لیے
اُنھوں نے دارالعلوم دیوبند کے شعبہٴ خوش خطی کے صدر مولانا اشتیاق
احمد دیوبندی (متوفی ۱۳۹۵ھ/۱۹۷۵/)
کے سامنے زانوئے تَلَمُّذْ تہہ کیا۔ مولاناریاست علی جلی اور خفی
دونوں طرح کی کتابت بہت نفیس کرتے تھے۔ فاؤنٹن پن سے بھی
وہ تیز لکھنے کے باوجود ایسا لکھتے تھے کہ اُن کی تحریر
موتیوں کی لڑی معلوم ہوتی تھی۔ اِس سلسلے میں
بھی دارالعلوم کے اساتذہ میں امتیازی شان کے حامل تھے۔
جو لوگ اہلِ قلم، مصنف اور مضمون نگار ہوتے ہیں، بالعموم اُن کی تحریریں
خوب صورت اور جاذب نظر نہیں ہوتیں؛ لیکن کچھ لوگ مولانا ریاست
علی جیسے بھی
ہوتے ہیں، جو بولتے ہیں تو موتیاں رولتے ہیں، لکھتے ہیں
تو تحریر کے ظاہر وباطن سے قاری کو اسیرِ بے دام بنالیتے
ہیں۔
تقریباً تین ساڑھے تین
سال دہلی میں جمعیة علماے ہند میں برسرعمل رہے۔ آدھی
مدت تک الجمعیة پریس گلی قاسم جان دہلی کے منیجر
رہے اور آدھی مدت الجمعیة بک ڈپو واقع جمعیة بلڈنگ گلی
قاسم جان کے منیجر کی حیثیت سے کام کیا۔
اس کے بعد اُنھوں نے دیوبند میں
کتابت اور دینی کتابوں کی اِشاعت کی خدمت شروع کی۔
”کاشانہٴ رحمت“اور ”مکتبہ مجلس قاسم المعارف“ کے نام سے اشاعتی اِدارے
قائم کیے، جن سے دیوبند میں پہلی مرتبہ مولانا اکبر شاہ
خاں نجیب آبادی (۱۲۷۳ھ/۱۸۵۷/
= ۱۳۵۷ھ/۱۹۳۸/) کی ”تاریخِ
اسلام“اور قاضی محمد سلیمان منصورپوری (متوفی ۱۳۴۹ھ/۱۹۳۰/)
کی ”رحمة للعالمین“ شائع کی۔ وہ اس زمانے میں لال
مسجد دیوبند کے قریب ایک کرایے کے مکان میں رہتے
تھے، اسی دور میں راقم کی اُن سے پہلی ملاقات طالب علمی
کے زمانے میں، اُن کے ایک قابلِ رشک ہم درس مولانا محمد اُویس
القاسمی رحمة اللہ علیہ (متوفی ساڑھے نوبجے صبح جمعہ: ۳/جمادی
الاخری ۱۴۱۹ھ= ۲۵/ستمبر ۱۹۹۸/)
کے برادر خُرد مولوی عمیس اختر قاسمی کی معیت میں
ہوئی، جو اُن کے پاس اکثر آیا جایا کرتے تھے۔ مولانا کی
خوش اخلاقی اور شیریں کلامی سے بہت محظوظ ہوا۔
اُنھوں نے اِس موقع سے یہ نصیحت بھی کی کہ عزیزم
اگرمحنت اور لگن سے پڑھنے کا ارادہ ہے تو شہر کے طلبہ سے راہ ورسم نہ بڑھانا؛ ورنہ
دارالعلوم کی علمی فَضا سے کما حقہ فائدہ نہ اٹھاسکوگے۔ مولانا
ریاست علی اپنے رفیق درس مولانا اویس القاسمی سے دلی
تعلق رکھتے تھے؛ بل کہ بعض حیثیتوں سے اُنھیں اپنے سے فائق
سمجھتے تھے اور اُن کی بڑی تعریف کرتے تھے۔ اُن کے انتقال
کے موقع سے وہ خود زیریں منزل افریقی منزل قدیم سے،
جہاں اُس وقت اُن کی رہائش تھی، راقم کے پاس بالائی منزل پر تشریف
لائے جہاں ہماری اب بھی رہائش ہے اور تعزیت فرمائی کہ وہ
میرے پیارے دوست تھے اور بہت سی باتوں میں مجھ سے برتر
تھے، چوں کہ وہ تمھارے بھائی ہوتے تھے کہ اُن کے پردادا اور تمھارے پردادا
سگے بھائی تھے، اِس لیے میں تم سے دلی تعزیت کرتا
ہوں، اللہ اُنھیں غریقِ رحمت کرے اور جنت الفردوس میں ہم سبھوں
کو ایک دوسرے سے ملائے۔
اِن ساری مصروفیات کے ساتھ
خواہش مند طلبہ کو تَطَوُّعاً کتابیں پڑھاتے رہے، کچھ عرصہ مدرسہ اصغریہ
دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس زمانے
میں وہ شاعری بھی کرتے تھے، بہت سے اشعار دوسروں کو لکھ کر دے دیے،
کلام کا بہت مُنْتَخَبْ حصہ۱۳۹۶ھ/ ۱۹۷۶/
میں ”نغمہٴ سحر“ کے نام سے شائع ہوا۔
۱۳۸۳ھ/۱۹۶۴/
میں مولانا سلطان الحق کی صاحب زادی ”صفیہ شاہانہ“ سے اُن کا عقد نکاح
ہوا، جن کے بطن سے اُن کے تین صاحب زادے مولانا سفیان قاسمی،
مولانا قاری محمد عدنان قاسمی اور مولانا محمد سعدان قاسمی ہیں۔
الحمدللہ ساری اولاد بھی صاحبِ اولاد ہے اور علمی وعملی
دنیا میں سرگرم کار ہے۔
۱۳۹۱ھ/۱۹۷۱/
میں دارالعلوم دیوبند میں درجہٴ ابتدائی میں
تقرر ہوا، ۱۳۹۶ھ/۱۹۷۶/ میں
وسطی ب میں ترقی دی گئی، ۱۴۰۲ھ/۱۹۸۲/
میں وسطی الف میں ترقی دی گئی۔ اِن ترقیات
کے لیے اُنھوں نے کوئی درخواست نہیں دی؛ بل کہ مجلس شوریٰ
نے ازخود لیاقت کی بنیاد پر اُنھیں ترقیات سے نوازا۔
۱۴۰۲ھ/۱۹۸۲/
میں رسالہ ”دارالعلوم“ کا مدیرمسئول مقرر کیاگیا، اُنھوں
نے مختلف تدریسی وغیر تدریسی ذمے داریوں کے
ساتھ دو سال تک یہ اہم خدمت بہ حسن وخوبی انجام دی۔
۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳/
میں اُنھیں درجہٴ وسطیٰ الف سے درجہٴ علیا
میں ترقی ملی۔ مولانا میں جو طبعی انکساری تھی اور شہرت ونام
وری سے احتراز کی جو خوتھی، اس کی وجہ سے اُنھوں نے درجہٴ
علیا میں ترقی سے معذرت کی کہ بندہ اِس کا اہل نہیں
ہے؛ لیکن مجلسِ شوری اُن کی اہلیت اور کارکردگیوں
سے بہ خوبی واقف تھی؛ اِس لیے اُس نے اُنھیں بالاتفاق
درجہٴ علیا میں ترقی دی۔ اسی کے ساتھ
اُنھیں نائب مجلس تعلیمی مقرر کیاگیا۔
۱۴۰۵ھ/۱۹۸۴/
میں ناظمِ مجلس تعلیمی مقرر ہوے، اس وقت اُنھوں نے محسوس کیا
کہ نظامتِ مجلس تعلیمی کی ذمے داری کے ساتھ رسالہ
”دارالعلوم“ کی ذمے داری کو کما حقہ انجام دینا مشکل ہے، تو
اُنھوں نے ثانی الذکر خدمت سے سبک دوشی حاصل کرلی۔
یہ زمانہ دارالعلوم میں ہنگامی
حالات کا زمانہ تھا؛ لیکن مولانا کی اپنی انتظامی صلاحیت اور قدرتی
فہم وفراست کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اُن کا دورِ نظامت بہ خیروخوبی
گزرا؛ بل کہ اُنھوں نے صدر مدرس اورمجلس تعلیمی کے ارکان کے مشورے سے
بہت سی مطلوبہ اِصلاحات کیں جن سے دفتری امور میں آسانیاں
پیداہوئیں، امتحانِ داخلہ کو تحریری طور پر منظم کیا،
امتحانِ شش ماہی کو سالانہ کی طرح باقاعدہ تحریری اور
باوقار بنایا، تمام امتحانات میں امیدواروں کے نام کی بہ
جائے کوڈ نمبر ڈالنے کا سلسلہ قائم کیا۔
۱۴۰۸ھ/۱۹۸۷/
میں اُنھیں ”شیخ الہند اکیڈمی“ کا ڈائرکٹر مقرر کیاگیا،
اُن کے دور میں بہت سی علمی کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں
اوراکیڈمی کے ماتحت منتخب طلبہ کو تصنیف وتالیف کے لیے
تیار کرنے کے نظام کو باقاعدگی ملی۔
۱۴۱۲ھ/۱۹۹۱/
میں مجلسِ شوریٰ نے اُنھیں نائب مہتمم مقرر کرنے کی
تجویز منظور کی،گوکہ وہ اس سے قبل اور اس کے بعد بھی بار بار
عارضی طور پر قائم مقام مہتمم اور نائب مہتمم کی ذمّے داری
انجام دیتے رہے؛ لیکن اب ان کی صحت اورہمت پہلے جیسی
نہیں رہ گئی تھی؛ اِس لیے اِس منصب کی باقاعدہ ذمے
داری کے تحمل سے اُنھوں نے معذرت کردی؛ حال آں کہ صدرجمعیة
علماے ہند ورکن رکین مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبندحضرت مولانا
سیداسعد مدنی نَوَّرَاللہ مرقدَہ (۱۳۴۶ھ/۱۹۲۸/=
۱۴۲۷ھ/ ۲۰۰۶/) گھر آکر اس ذمے
داری کو قبول کرلینے کے لیے اُن کو تیار کرنے کی
کوشش کی؛ لیکن مولانا شدت کے ساتھ اپنی معذرت پر قائم رہے۔ چند سال بعد
مجلس تعلیمی اور اکیڈمی کی ذمے داریوں سے بھی
سبک دوشی اختیار کرلی اور صرف ”اِیضاح البخاری“ کے
کاموں کے لیے اپنے کو فارغ کرلیا۔
اُنھوں نے دارالعلوم دیوبند میں
اوّل عربی سے دورہٴ حدیث شریف تک کی تمام کتابیں
پڑھائیں؛ چناں چہ تقرروالے سالِ تعلیمی ۹۲-۱۳۹۱ھ/
۷۲-۱۹۷۱/ میں علم الصرف، نحومیر،
شرح مائة عامل، اِنشاے عربی، روضتہ الادب، نفحة العرب اور مشکاة الآثار
پڑھائیں۔ سالِ تعلیمی ۹۳-۱۳۹۲ھ
/۷۳-۱۹۷۲/ میں مختارات، شرح وقایہ،
ہدایة النحو، کافیہ، صف ابتدائی (براے تدریس عربی
زبان) اور صفِّ ثانوی، کے اسباق اُن سے متعلق رہے۔ سال تعلیمی
۹۴-۱۳۹۳ھ/ ۷۴-۱۹۷۳/
میں مختارات، مقامات حریری، نورالانوار، ملاحسن،تمرین عربی
اور الفیة الحدیث وغیرہ کتابیں آپ نے پڑھائیں۔
سالِ تعلیمی ۹۵-۱۳۹۴ھ/ ۷۵-۱۹۷۴/
میں بھی مذکور الصدر کتابیں ہی زیرتدریس رہیں۔
سالِ تعلیمی ۹۶-۱۳۹۵ھ/ ۷۶-۱۹۷۵/
میں البلاغة الواضحہ، ہدایہ ثانی، الاشباہ والنظائر، حسامی،
تمرین النحو اور کتاب النحو، آپ سے متعلق رہیں۔ سال تعلیمی
۹۷-۱۳۹۶ھ/ ۷۶-۱۹۷۶/
میں النحوالواضح، البلاغة الواضحہ اور ہدایہ ثانی نیز دیگر
مذکورہ بالا کتابیں آپ نے پڑھائیں۔ سال تعلیمی ۹۸-۱۳۹۷ھ/
۷۷-۱۹۷۶/ میں ملاحسن، حسامی،
اُصول الشاشی، نورالانوار، ہدایہ اوّل اور البلاغة الواضحہ کے اسباق
آپ نے پڑھائے۔ سال تعلیمی ۹۹-۱۳۹۸ھ/
۷۸-۱۹۷۷/ میں تفسیر ابن کثیر
(سورہٴ بقرہ وآل عمران) البلاغة الواضحة، ہدایہ ثانی اور دیوان
متنبی، آپ کے زیر تدریس رہیں۔ سالِ تعلیمی
۱۴۰۰-۱۳۹۹ھ/ ۷۹-۱۹۷۸/
میں تفسیر ابن کثیر، شرحِ عقائد، ہدایہ ثانی اور
البلاغة الواضحہ آپ سے متعلق رہیں۔ سال تعلیمی ۱۴۰۱-۱۴۰۰ھ/
۸۰-۱۹۷۹/ میں مشکاة شریف، نخبة
الفکر، البلاغة الواضحہ، دیوانِ حماسہ اور سبعہ معلقہ کے اسباق آپ کے ذمّے
رہے۔ سال تعلیمی ۱۴۰۲-۱۴۰۱ھ/
۸۱-۱۹۸۰/ میں مشکاة، نخبة الفکر،
البلاغة الواضحہ، دیوانِ حماسہ، ابن ماجہ شریف اور ہدایہ ثانی،
آپ سے متعلق رہیں۔
سال ہاے تعلیمی ۱۴۰۳-۱۴۰۲ھ/
۸۲-۱۹۸۱/ اور ۱۴۰۴-۱۴۰۳ھ/
۸۳-۱۹۸۲/ اور ۱۴۰۵-۱۴۰۴ھ/
۸۴-۱۹۸۳/ میں مشکاة شریف مع
نخبہ، البلاغة الواضحہ اور ابن ماجہ شریف پڑھائیں؛ البتہ آخر الذکر
سال میں حجة اللہ البالغہ کی تدریس بھی آپ سے متعلق رہی۔
سال ہاے تعلیمی ۱۴۰۶-۱۴۰۵ھ/۸۵-۱۹۸۴/
اور ۱۴۰۷-۱۴۰۶ھ/ ۸۶-۱۹۸۵/
میں مشکاة شریف مع نخبة الفکر اور ابن ماجہ شریف ہی کے
اسباق آپ کے ذمے رہے۔
سال ہاے تعلیمی ۱۴۰۸-۱۴۰۷ھ/
۸۷-۱۹۸۶/ تا ۱۴۳۰-۱۴۲۹ھ/۸۸-۱۹۸۷
تا ۲۰۰۸-۲۰۰۸/ میں مشکاة
شریف مع نخبة الفکر، البلاغة الواضحہ اور ابن ماجہ شریف کے اسباق آپ
سے متعلق رہے؛ البتہ دوتعلیمی سالوں: ۱۴۱۳-۱۴۱۲ھ/۹۲-۱۹۹۱/
اور ۱۴۱۴-۱۴۱۳ھ/۹۳-۱۹۹۲/
میں دیوانِ حماسہ اور سبعہ معلقہ کے اسباق بھی آپ کے ذمّے رہے؛
جب کہ سال ہاے تعلیمی ۱۴۱۵-۱۴۱۴ھ
/ ۹۴-۱۹۹۳/ و ۱۴۱۶-۱۴۱۵ھ/۹۵-۱۹۹۴/
میں دونوں دیوانوں کی جگہ ”مواقف المسترشدین“ آپ سے متعلق
رہی۔
زندگی کے آخری آٹھ نو سالوں یعنی
۱۴۳۰ھ تا ۱۴۳۸ھ/ ۲۰۰۹-۲۰۱۷/
ترمذی شریف اوّل اور البلاغة الواضحہ کے اسباق ہی آپ نے اپنے
ذمے رکھے؛ کیوں کہ آپ نے تحریری مشاغل کے لیے اپنے کو
فارغ کرلیا تھا اور ضعف عمری بھی اسباق کے زیادہ بار سے
سبک دوش ہوجانے کا متقاضی ہوئی۔
$$$
--------------------------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8-9، جلد:101 ،ذی
قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء